Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

آئیںآپ کو بونوں کی بستی دکھائیں

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2017ء

چنکو درخت پر چلتے ہوئے ندی پار کرنے لگا۔ وہ بہت سنبھل کر چل رہا تھا۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ اس کا پاؤں پھسل گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ ندی میں گِرجاتا۔ اُس کی پتلون درخت کی ایک ٹہنی میں پھنس گئی اور وہ گِرنے سے بچ گیا۔

پیارے بچو! آپ نے برسات کے دنوں میں آسمان پر سات رنگی کمان تو ضرور دیکھی ہوگی۔ اسے قوسِ قزح بھی کہتے ہیں‘جہاں قوسِ قزح زمین پر ملتی ہوئی دکھائی دیتی ہے‘ وہیں درختوں کے نیچے ایک چھوٹی سی بستی آباد ہے جسے بونوں کی بستی کہتے ہیں۔ بونے دیکھنے میں بالکل ہماری طرح کے ہوتے ہیں لیکن ان کے قد ہم سے بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں ۔
بونوں کی بستی کے لوگ بڑے ہنس مُکھ اور ایمان دار ہیں۔ یہ جتنے چھوٹے ہیں‘ ان کے دل اتنے ہی بڑے ہیں۔ ہمیشہ مل جُل کررہتے ہیں‘ دُکھ سکھ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔
اس بستی میں چنکو نام کا ایک بونا تھا‘ وہ روزانہ شام کو ’’بگل‘‘ بجاتا تاکہ کام پر گئے ہوئے لوگ واپس بستی میں پہنچ جائیں اور رات ہونے پر کوئی راستہ نہ بھول جائے۔ یہ کام بہت اہم تھا‘ چنکو کے باپ دادا بھی یہی کام کیا کرتے تھے۔
ایک شام چنکو اپنے کام سے جلدی فارغ ہوگیا‘ اُس دن بہت سردی تھی‘ وہ اپنے دوستوں کے پاس جانے کی بجائے گھر چلا آیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اُس نے دیکھا کہ اُس کا بھائی اور چھوٹی بہن لحاف اوڑھے گرم گرم دودھ پی رہے ہیں۔ وہ بہت بیمار دکھائی دے رہے تھے۔ یہ دیکھ کر چنکو بہت پریشان ہوا۔ اُس نے اپنی ماں سے پوچھا: ’’امی کیا بات ہے‘ ان دونوں کے چہرے پیلے کیوں پڑگئے ہیں؟‘ ‘ ’’چنکو بیٹے! انہیں ٹھنڈ لگ گئی ہے‘‘ ماں نے جواب دیا: بیٹھو! میں تمہارے لیے دُودھ لاتی ہوں: مگر امی! انہیں دوائی کے بغیر آرام کیسے آئے گا؟ ‘‘چنکو نے فکرمند ہوکر کہا: ’’تم ٹھیک کہتے ہو‘‘ اگر یہ صبح تک تندرست نہ ہوئے تو تُم جاکر دادی اماں سے دوائی لے آنا‘‘ یہ کہہ کر چنکو کی امی دودھ لینے چلی گئیں۔ دوسرے دن ان کی حالت اور بھی خراب ہوگئی تو چنکو کی امی نے اُسے دوائی لانے بھیج دیا۔ چنکو فوراً جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔ دادی اماں بستی سے کچھ دور‘ ندی کے پار جنگل میں اکیلی رہتی تھیں وہ چنکو کی سگی دادی نہیں تھیں۔ وہ جڑی بوٹیوں سے دوائیں تیار کرکے لوگوں کامُفت علاج کیا کرتی تھیں۔ سب لوگ ان کی بے حد عزت کرتے اور انہیں دادی اماں کہتے کر پکارتے۔ چنکو تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ندی کے قریب پہنچا۔ ندی پر لکڑی کا ایک پُل بنا ہوا تھا لیکن وہ بہت دور پڑتا تھا۔ چنکو سوچ میں پڑگیا وہ تو جلدی سے دادی اماں کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔ قریب ہی ایک درخت آندھی سے ٹوٹ کر ندی کے اوپر گِرا ہو ا تھا اور پُل کا کام دیتا تھا۔
چنکو درخت پر چلتے ہوئے ندی پار کرنے لگا۔ وہ بہت سنبھل کر چل رہا تھا۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ اس کا پاؤں پھسل گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ ندی میں گِرجاتا۔ اُس کی پتلون درخت کی ایک ٹہنی میں پھنس گئی اور وہ گِرنے سے بچ گیا۔ چنکو کو وہاں لٹکے ہوئے کافی دیر ہوگئی مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ اچانک اسے ’’بگل‘‘ کا خیال آیا۔ اس نے زور زور سے بگل بجانا شروع کردیا۔ بگل کی آواز سن کر دو خرگوش وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے چنکو کو درخت کے ساتھ لٹکے ہوئے دیکھا تو الٹے پاؤں جنگل کی طرف بھاگے اوردادی اماں کے گھر پہنچ گئے۔ دادی اماں اس وقت اپنے باغ میں جڑی بوٹیاں اکٹھی کررہی تھیں۔ دونوںخرگوش دادی اماں کے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’دادی اماں! جلدی چلیں! چنکو درخت کے ساتھ لٹکا ہوا مدد کیلئے پکار رہا ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ندی میں گرجائے‘‘ یہ سن کر دادی اماں نے کہا: ’’اوہ! بگل کی آواز تو مَیں نے بھی سنی تھی‘ مگر میں نے اُس پر کوئی خاص توجہ نہ دی‘‘ دادی اماں نے جڑی بوٹیوں کی ٹوکری کو وہیں رکھا اور گھر کے اندر چلی گئیں۔ وہاں کونے میں ایک صندوق پڑا ہوا تھا‘ دادی اماں نے صندوق کا ڈھکنا اٹھایا اور اس میں سے ایک بڑی سی چادر نکالی۔ ’’یقیناً‘ اس سے چنکو کو بچایا جاسکتا ہے‘‘ یہ سوچ کر دادی اماں ندی کی طرف چل پڑیں۔ دونوں خرگوش دادی اماں کے آگے آگے چل رہے تھے۔ جب درخت کے قریب پہنچے تو چنکو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’وہ رہا چنکو‘‘۔۔۔؟ چنکو ابھی تک درخت کی ٹہنی کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔ خوف سے اُس کا رنگ زرد ہورہا تھا۔ جب اُس نے دادی اماں کو دیکھا تو خوشی سے اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ ’’گھبراؤ نہیں چنکو‘‘ دادی اماں نے بلند آواز سے کہا۔ دادی اماں نے چادر زمین پر پھیلا دی اورخود پیچھے ہٹ گئیں۔ پھر آواز دے کر پرندوں کو بلایا جو دادی اماں سے بہت پیار کرتے تھے۔ پرندے آواز سنتے ہی وہاں پہنچ گئے۔ دادی اماں نے اشاروں سے پرندوں کو کچھ سمجھایا۔ جس پر انہوں نے اپنی چونچوں سے چادر کو کناروں سے پکڑ لیا اور ہوا میں اڑنے لگے۔ پرندے اڑتے ہوئے چادر کو چنکو کے بالکل نیچے لے آئے۔ اوپر سے ایک پرندے نے اپنی تیز چونچ سے وہ ٹہنی کاٹ دی جس کے ساتھ چنکو لٹکا ہوا تھا۔ ٹہنی کٹتے ہی چنکو دھم سے چادر کے اوپر گرا جسے پرندوں نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ پرندے چادر کو اسی طرح پکڑے دادی اماں کے پاس لے آئے۔ چنکو نے نیچے اتر کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ دادی اماں نے اسے سینے سے لگالیا اور اپنےگھر لے آئیں۔ دادی اماں نے چنکو کو گرم گرم دودھ پلایا اور سمجھانے لگیں ’’آئندہ کبھی جلدبازی سے کام نہ لینا کیونکہ جلد بازی شیطان کا کام ہے‘‘ چنکو نے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی کہ آئندہ وہ ہمیشہ سیدھا راستہ اختیار کرے گا۔ جب چنکو دودھ پی چکا تو بولا: ’’دادی اماں! میرے بھائی اور چھوٹی بہن کی طبیعت بہت خراب ہے‘ میں ان کی دوائی لینے کیلئے آپ ہی کے پاس آرہا تھا۔ دادی اماں نے پوچھا: ارے! کیا ہوا ان کو؟ ’’انہیں ٹھنڈ لگ گئی ہے‘‘ چنکو نے جواب دیا۔ ’’تھوڑی دیر بیٹھو‘ میں ابھی دوائی بنا کر دیتی ہوں‘‘ دادی اماں نے کہا اور پھر کچھ ہی دیر بعد دوائی بنا کر چنکو کو دے دی۔ چنکو نے ان کا بے حد شکریہ ادا کیا اور گھر کو چل دیا۔ اس دفعہ اس نے پل کے راستے ندی کو پار کیا۔آئندہ جلد باز ی سے کام لینے پر توبہ کی۔پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں مل جل کر رہنا چاہیے‘ کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے‘ جب کوئی مدد کو بلائے تو فوراً اس کی مدد کرنی چاہیے۔ جلدی بازی تو بالکل نہیں کرنی اور ہاں کوئی ایسا کام ہرگز نہیں کرنا جس سے آپ کو نقصان پہنچنے کا ذرا سا بھی اندیشہ ہو۔
(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 062 reviews.